قاسم علی شاہ کو اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا، موصوف کے قریبی ساتھی کیا کہتے ہیں؟
تیئس مارچ دو ہزار بائیس کا دن تھا اور مقام تھا اسلام آباد کا پریڈ گرائونڈ،مسلح افواج کی شاندار اور پروقار پریڈ بس شروع ہونے کو تھی اور پریڈ گرائونڈ میں مہمانان گرامی کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ایک وقت تھا جب پریڈ گرائونڈ میں وزیراعظم یا صدر مملکت سے زیادہ آرمی چیف کو دیکھنے کے لوگ مشتاق ہوتے تھے لیکن اس بار کچھ انہونی ہوئی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی آمد پر پریڈ گرائونڈ میں پن ڈراپ سائلنس تھی لیکن جیسے ہی عمران خان کا قافلہ پریڈ گرائونڈ میں داخل ہوتا ہے تو منظر ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔ مسلح افواج کی پریڈ میں پہلی بار کسی مہمان گرامی کی آمد پر ان کے استقبال کے لئے ایسا شور شرابا ہوا جسے پہلی بار دیکھا اور سنا جا رہا تھا۔ یعنی میدان بھی ان کا، گھوڑے بھی ان کے لیکن فاتح کپتان ہی ٹھہرا، یہ کوئی معمولی نہیں بلکہ غیر معمولی واقعہ تھا۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ عمران خان سے عوام کی والہانہ محبت کا اندازہ لگاتے ہوئے کوئی بہتر حکمت عملی بنائی جاتی لیکن سابق آرمی چیف نے کنفرنٹیشن کی راہ کا انتخاب کیا۔اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ایک سال قبل اگر لوگوں سے رائے لی جاتی تو اکثریت فوج کو سیاستدانوں پر ترجیح دیتی نظر آتی۔یہاں تک کہا جاتا تھا کہ عام انتخابات میں امیدواروں کے ناموں کے ساتھ اگر یہ لکھ دیا جاتا کہ آپ ان کو ووٹ دینا چاہتے ہیں یا پھر فوج کو تو عوام کی بھاری اکثریت فوج کو ملک کا حکمران دیکھنے کی خواہاں ہوتی لیکن سابق آرمی چیف نے فوج کا یہ ایک مضبوط پوائنٹ ضائع کروا دیا ہے۔عمران خان کی حکومت ختم ہوگئی لیکن ان کی مقبولیت اور عزت بہت بڑھ گئی۔بطور مسلمان ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ ہی جسے چاہے عزت اور جسے چاہے ذلت دیتا ہے، تو پھر کپتان کے وقار میں اضافہ کیسے خودساختہ ہو سکتا تھا؟خان صاحب کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لئے آڈیوز اور ویڈیوز مارکیٹ میں لانچ کی گئیں لیکن نتیجہ کپتان کی شہرت میں مزید اضافے کی صورت میں ہی نکلا۔وہ آئی ایس پی آر جس کے تمام سوشل میڈیا اکائونٹس پر فالورز اور ویوز کی تعداد لاکھوں میں تھی،وہاں پر ویوز ہزاروں تک محدود ہو گئے،دوسری جانب کپتان کی کہی گئی چھوٹی سی چھوٹی بات بھی لاکھوں افراد اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس پر لگانے لگے، صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ لوگ اپنی اصلاح کرتے لیکن کئی لوگ اپنی مقبولیت کے زعم میں خان کو شکست دینے کے لئے آگے آئے اور خود چاروں خانے چت ہو گئے۔ایک ایسا ہی کردار قاسم علی شاہ کا ہے۔موصوف کو خان کی مقبولیت میں ڈینٹ ڈالنے کے لئے لانچ کیا گیا لیکن شکاری خود ہی اپنے بچھائے ہوئے جال میں پھنس گیا۔لوگوں کو پراعتماد باڈی لینگوئج کی ٹپس دینے والا موٹیویٹر سپیکر خان کے سامنے اپنی باڈی لیگوئج کو ہی ہار بیٹھا۔سرد موسم میں انٹرویو کے بعد پسینے سے شرابور قاسم علی شاہ کے وہم و گمان میں بھی شائد یہ نہ تھا کہ وہ کیا کر بیٹھا ہے۔خان کی مقبولیت کو کم کرنے کے مشن پر جانے والے قاسم شاہ کی مقبولیت کو ایسا ڈینٹ پڑا کہ وہ اب تک سنبھل نہیں پا رہا۔لوگوں کی بڑی تعداد نے قاسم علی شاہ کے سوشل میڈیا اکائونٹس کو ان سبسکرائب کرنا شروع کر دیا ہے۔اور تو اور اس موٹیویشنل سپیکر کو اب لوگ باڈی لینگوئج کو بہتر بنانے کے مشورے دیتے نظر آ رہے ہیں۔قاسم علی شاہ وضاحتوں پر وضاحتیں دے رہے ہیں لیکن ان کو اب شائد یہ احساس ہو چکا ہو کہ وہ ایک ایسے شخص سے ٹکرا گئے ہیں جس کے ساتھ قدرت کھڑی نظر آ رہی ہے اور قدرت جس کے ساتھ کھڑی ہو اس کو شکست کیسے دی جا سکتی ہے؟اب ایسا بھی نہیں کہ لوگوں نے اس سے سبق نہ سیکھا ہو، پنجاب اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچانے کے لئے پی ڈی ایم حکومت نے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا لیکن اس بار وہ تحریک انصاف کے اراکین کو توڑنے میں ناکام رہی۔ایک زرداری سب پر بھاری کا نعرہ بھی ہوا ہو گیا اور بھاری رقوم کی پیشکش بھی دم توڑتی نظر آئی کیونکہ اب ان اراکین نے نوشتہ دیوار کو پڑھ لیا ہے،انہیں معلوم ہے کہ کپتان سے دغا لوگ معاف نہیں کریں گے اور ان کا سیاسی کیریئر ہمیشہ کے لئے ختم ہو کر رہ جائے گا۔قاسم علی شاہ کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ موصوف کو اب اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہونے لگا ہے اور وہ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ انہوں نے عمران خان کے حوالے سے غلط اندازے لگائے تھے اور بظاہر ایسا ہی لگ رہا ہے کہ قدرت خان صاحب کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کی ہوئی ہر غلطی بھی اپوزیشن کیلئے درد سر بن جاتی ہے۔
0 Comments